Orhan

Add To collaction

چاند دیکھکر

" اماں ! پہلی بات تو یہ کہ میں ایوب سے پوچھے بغیر کچھ نہیں کہہ سکتی' میرے میکے میں بھی بہت لڑکیاں ہیں' خوب صورت اور پڑھی لکھی۔۔۔ دوسری بات یہ کہ صبا۔۔۔۔ ان کی لے پالک بیٹی ہے' ہماری نہیں۔ انوشے سے پہلے اس کے فرض سے فارغ ہوں ' اگر مناسب طریقے سے اس کے لیے رشتہ دیکھیں اور رخصت کریں۔ جب تک گود خالی تھی اس سے دل بہلایا' اپنی اولاد ملی تو یہاں ہمارے دم پر چھوڑ کر چلے گئے۔ ارے ہمیں کیا پتا کس کی اولاد ہے ' کیا نام نسب ہے۔۔۔ کیسے بیاہ دیں اور کس سے؟"

ان کی زبان سے پہلی بار وہ اپنے بارے میں اس طرح کے الفاظ سن رہی تھی۔

" اور تم یہاں کھڑی کھڑی کیا کر رہی ہو؟ جاؤ دیکھو باہر کتنا کام ہے؟" وہ اس طرف مڑیں ' اس نے باہر جانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا تھا۔

انکھیں اسمان پر ڈوبتے ابھرتے تاروں کو دیکھنے میں مصروف تھیں۔ دل کی دنیا ابھی بسی ہی کہاں تھی کہ اجڑ چلی تھی' یوں جیسے کہ کسی کی نظر لگ گئی ہو۔ خوابوں کو ' خواہشوں کو۔ محبت کی طرف اٹھنے والے پہلے قدم کے بعد ہی " نو انٹری"کا بورڈ لگا دیا تھا۔

" ایوب سلیمان" کسی ممنوعہ علاقے کی طرح دکھائی دینے لگا تھا اور پھر اس کی حیثیت ہی کیا تھی ایسے اونچے خواب دیکھنے کی۔۔۔ کون تھی وہ؟یتیم خانے سے لائی گئی ایک لا وارث بچی جسے وقتی طور پر کھلونا سمجھ کر دل بہلایا گیا اور وہ ایوب سلیمان۔۔۔۔ وہ تو اس گھر کا فرد تھا' اس گھر کا وارث۔۔۔ بڑا پوتا جو کماؤ بھی تھا اور سب سے پر اثر شخصیت کا مالک بھی۔۔۔۔ وہ چاند تھا اور صبا۔۔۔ صبا خاک کے ذروں سے بھی ارزاں۔۔۔ وہ انوشے کے لیے ہاں کر دے گا۔ یہ سوچ کر ہی اسے دھچکا لگا تھا اس نے ہانیہ کو کہتے سنا تھا۔

" ایوب بھائی! امی اور خاص طور پر دادی کے سامنے انکار کر ہی نہیں سکتے۔۔۔ اور کریں گے بھی کیوں۔۔۔۔کس کے لیے۔۔۔۔ان کے پاس انوشے سے اچھی چوائس ہو ہی نہیں سکتی۔ "

اس کی انکھوں سے انسو نکلنے لگے' کچھ کھو جانے کا احساس تھا' ابھی اس نے پایا ہی کیا تھا۔ ابی تو ایک نئے احساس کا وجود تھا جس نے کسی پودے کی طرح بیج سے سر نکالا تھا۔

" صبا۔۔۔ صبا۔" کسی نے دروازہ پیٹا تھا' وہ ہانیہ تھی۔۔۔ وہ انکھیں صاف کرتی باہر آئی۔

" کوئی ہوش ہے تمہیں کیا وقت ہو چلا ہے؟ سحری بنانی ہے جلدی کرو۔۔۔۔۔ امی کی طبعیت پہلے ہی خراب ہے۔"

وہ گھبرا گئی' جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا اور پھر گھر کے کاموں میں پڑی تھی' ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ وہ شرمندہ تھی۔ وہ وضو کر کے جلدی سے کچن میں گھس گئی۔

" آپ آرام کریں تائی امی' میں کر لیتی ہوں۔" وہ تیزی سے ہاتھ چلانے لگی۔

"ہوں۔۔۔۔ ایسا کونسا سوگ منا رہی تھی کہ ہوش نہیں رہا۔" وہ جاتے جاتے بڑبڑاہٹ کے انداز میں بولیں۔ اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا' ' ایوب ' دادی کے پاس بیٹھ رہے تھے' وہ کیا کہتی کہ اس کا روگ کیا ہے؟

   0
0 Comments